قرآن کریم میں ازواج مطہرا ت کو حجاب کا
حکم اور اس کا دائرہ کار
ڈاکٹر مقبول حسن گیلانی***
Are the commandments
related to Hijab, and addressed to the Mothers of the Faithful in the Holy
Quran, specifically for the Mothers of the Faithful or for Muslim women in
general? In the article given below, this standpoint has been explained with
arguments. The commands given in the Holy Quran are not particularly for the
mothers of the Faithful but for the common Muslim Women as well. The early
Islamic community presents such followable and appreciable example of this
Islamic command of hijab which is unparalleled in the whole human history. It very
clearly and vividly proves as how much importance Islam attaches to the honour,
respect, dignity and safety of women.
تعارف :
اسلام
معتدل مذہب ہے جو ہرقسم کے افراط وتفریط سے پاک ہے ۔اس کے بیان کردہ احکام مکمل
ضابطہ حیات ہونے کے ساتھ ،بشریت کے تقاضوں کو بھی پورا کرتے ہیں ۔اسلام نے جاہلیت
کےایسے رسم ورواج او ر خصائل جن سے فتنہ وفساد اور برائی کے اثرات پیدا ہوسکتے تھے
ان کو بدل کے امن وچین اورسکون و اطمینان والے معاشرے اور تہذیب کی بنیاد ڈالی
۔انسانی جذبات کو ہر قسم کے ہیجان سے بچانے کے لیے ایسے احکامات دیے جن کا تعلق
براہ راست مرد وعورت دونوں سے ہے ۔اور کچھ ایسے احکامات ہیں جو صرف عورتوں سے ہی
متعلق ہیں جیسا کہ حجاب کا حکم ہے ۔
“حجاب” کےاحکامات اسلام میں
پانچ ہجری کو نبی کریم ﷺ کی حضرت زینب بنت جحش ؓ کے ساتھ شادی کے بعدنازل
ہوئے([1])اس پر سب کااتفاق ہےکہ
حجاب کے متعلق سب سے پہلے نازل ہونے
**لیکچرار،گورنمنٹ ولایت حسین
اسلامیہ ڈگری کالج ملتان،پاکستان۔
***ایسوسی ایٹ پروفیسر، یونیورسٹی آف ایجوکیشن ملتان کیمپس،
ملتان۔
والی یہی آیت ہے﴿ وَاِذَا
سَاَلْتُمُوْهُنَّ مَتَاعًا فَسْـَٔــلُوْهُنَّ مِنْ وَّرَاۗءِ حِجَابٍ ۭ ذٰلِكُمْ
اَطْهَرُ لِقُلُوْبِكُمْ وَقُلُوْبِهِنَّ ۭ ﴾
([2]) جس کو آیت حجاب
کہاجاتاہے۔([3])
اور اسی طرح
ازواج مطہرات کو مخاطب کرتے ہوئے قرآن مجید میں ارشادباری تعالی ہے:
﴿ يٰنِسَاۗءَ
النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَاۗءِ اِنِ اتَّــقَيْتُنَّ فَلَا
تَخْـضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِيْ فِيْ قَلْبِهٖ مَرَضٌ وَّقُلْنَ
قَوْلًا مَّعْرُوْفًا وَقَرْنَ فِيْ بُيُوْتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَــبَرُّجَ
الْجَاهِلِيَّةِ الْاُوْلٰى ﴾ ([4])
“اے نبی کی
بیویو! تم معمولی عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم اللہ سے ڈرتی رہو اور دبی زبان سے
بات نہ کہو کیونکہ جس کے دل میں مرض ہے وہ طمع کرے گا اور بات معقول کہو۔ اور اپنے
گھروں میں بیٹھی رہو اور گزشتہ زمانہ جاہلیت کی طرح بناؤ سنگھار دکھاتی نہ پھرو۔”
مذکورہ بالا
آیات میں ازواج مطہرات کےلیے جو احکامات بیان ہوئے ہیں کیا یہ ازواج مطہرات کے ساتھ خاص ہیں یا عام
مسلمان عورتوں کے لیے بھی ہیں ۔؟بعض اہل علم کی رائے میں یہ احکام حجاب ازواج
مطہرات کے ساتھ خاص ہیں ۔جن میں نمایا ں نام ڈاکٹر یوسف القرضاوی کا ہے ۔
شیخ قرضاوی
کا موقف :
ان تمام آیات کا مضمون انتہائی واضح ہے کہ یہ احکام ازواج مطہرات کے ساتھ خاص
ہیں ۔
دلیل:
آیات کا سیاق
وسباق اس بات پر دلالت کرتاہے کہ ازواج مطہرات ہی کے لیے یہ احکام ہیں ۔
جس کی مزید وضاحت چند نکات کی صورت میں درج ذیل ہے ۔
۱۔ طرز تخاطب میں خاص الفاظ کا انتخاب﴿ يٰنِسَاۗءَ
النَّبِيِّ﴾
۲۔ پھر مزیدتاکید کے لیے ﴿لَسْتُنَّ
كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَاۗءِ﴾کا اضافہ
۳۔
ا زاوج مطہرات کو فاحشہ مبینہ پر دوگنا عذاب
۴۔
اعمال صالحہ پر دگنا ثواب
۵۔ حضوراکرم
ﷺ کی وفات کے بعد ازواج مطہرات سے نکاح کی حرمت
یہ سب
باتیں قرآن
کریم نے واضح انداز میں بیان کی ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ احکام ازواج مطہرات کے ساتھ خاص ہیں ۔اور ان کا سیاق وسباق بھی ازواج مطہرات کے ساتھ خاص ہونے پر دلالت کررہاہے
تو پھر عموم کا قول کس دلیل کی بنیاد پر اختیار کیا جارہا ہے۔؟([5])
چنانچہ ڈاکٹر
محمد فاروق خان مرحوم کی رائے بھی یہی تھی
کہ سورۃ احزاب میں ازواج مطہرات سے حجاب کے احکامات ان کے ساتھ خاص ہیں ۔([6])اسلامی نظریاتی کونسل کے
سابقہ چئیر مین جناب خالد مسعود کا موقف بھی یہی ہے کہ حجا ب کا حکم ازواج مطہرات
کے ساتھ خاص ہے ۔([7])
اوراسی نقطہ
نظرکے دو مضمون ایک ہی عنوان“امہات المومنین کے لیے حجاب کے خصوصی احکام”ماہنامہ “الشریعہ ”گوجرانوالہ میں شائع ہوئے ہیں اور دلائل بھی تقریبا یہی ہیں ۔([8])
اب دیگر
مفسرین کی آرا ءکو پیش کیا جاتا ہے کہ
انہوں نے احکام حجاب کو ازواج مطہرات کے ساتھ خاص کیاہے یا اس کے دائرہ کار میں
عام خواتین اسلام کو بھی شامل کیاہے ۔
مفسرین کے
اقوال :
امام ابو بکر
جصاص ؒ(م 370ھ)آیت حجاب کی
تفسیرمیں لکھتے ہیں :
“اور یہ حکم اگر چہ خاص طور پر نبی کریم ﷺاورآپ کی ازواج کے بارے میں نازل ہواہے تاہم اس کا معنی عام ہے اور ہم
احکامات کی پیروی کرنے کے پابند ہیں مگر وہ احکامات جن کو اللہ تعالیٰ نے نبی کریم
ﷺ کے ساتھ خاص کیاہے۔”([9])
امام قرطبیؒ(م 671ھ)لکھتے ہیں :
“یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالی نے ازواج مطہرات سے ضرورت پڑنے پر پردے کے پیچھے
سے سوال کرنے یا مسئلہ پوچھنے کی اجازت دی
ہے ۔ اور اس حکم میں تمام مسلمان عورتیں داخل ہیں ۔اس لیے کہ اس آیت کے علاوہ
شریعت کے دوسرے اصول بھی اس بات کو شامل ہیں
کہ عورت کاسارا جسم اور اس کی آواز
ستر ہے ۔جیساکہ پیچھے ذکر ہوا،پس عورتوں کے لیے اپنے جسم کا کھولنا جائز
نہیں ،مگر ضرورت کے تحت ،جیسے گواہی دینا ،یا بیماری جو اس کے جسم پر پر ہو یاکسی ایسی چیز کا سوال کرنا جس کااس کے
پاس ہونا معین ہو ۔”([10])
علامہ ابن کثیرؒ(م774ھ)
﴿يٰنِسَاۗءَ
النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَاۗ﴾کی تفسیرمیں لکھتے ہیں:
“اللہ
تعالٰی اپنے نبی ﷺ کی بیویوں کو آداب سکھاتا ہے اور چونکہ تمام عورتیں انہی کے
ماتحت ہیں۔ اس لئے یہ احکام سب مسلمان عورتوں کے لئے ہیں۔ ” ([11])
آیت حجاب کی تفسیر کرتے
ہوئے مفتی محمد شفیعؒ لکھتے ہیں :
“سبب نزول کے خاص واقعہ کی
بنا ء پر بیان اور تعبیر میں خاص ازواج مطہرات کا ذکر ہے ،مگر حکم ساری امت کے لیے
عام ہے ۔ ”؟ ([12])
اور﴿يٰنِسَاۗءَ
النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَا﴾کی تفسیر کرتے ہوئے مفتی
محمد شفیع ؒ لکھتے ہیں:
“اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی
اطاعت ،نماز اور روزہ کی ادائیگی میں تو کسی کو شبہ نہیں کہ وہ ازواج مطہرات کے
ساتھ خاص ہوں،اور رہا غیرمردوں سے کلام میں نرمی ونزاکت سےاجتناب اورگھروں سے
بلاضرورت نہ نکلنا،اور تبرج جاہلیت کی ممانعت اگر غور کریں تو واضح طور پر معلوم
ہوتاہے کہ یہ احکام بھی ازواج مطہرات کےساتھ خاص نہیں بلکہ تمام امت کی عورتوں کو
شامل ہیں ۔” ([13])
سیدابو
الاعلی مودودیؒ آیت حجاب کی تفسیر کے دوران لکھتے ہیں :
“آیت حجاب کےنزول کےبعد
ازواج مطہرات کے گھروں میں دروازوں پر پردےلٹکادیے گئے ،اور چونکہ حضورﷺ کا گھر
تمام مسلمانوں کے لیے نمونے کا گھر تھا اس لیے تمام مسلمانوں کے گھروں پر بھی پردے
لٹک گئے۔مسلمانوں کے گھروں میں پردوں کا لٹک جانا اس بات کی علامت ہے کہ انہوں نے
اس حکم کوعام سمجھا اورآیت حجاب کا آخری
فقرہ﴿ذٰلِكُمْ
اَطْهَرُ لِقُلُوْبِكُمْ وَقُلُوْبِهِنَّ ﴾جس طرح ازواج مطہرات کو
قلوب کی پاکیزگی کی ضرورت ہے اسی طرح عام مرداور عورت بھی اگر قلوب کی پاکیزگی
رکھنا چاہیں تو وہ یہ طریقہ اختیار کریں ۔” ([14])
اور﴿ يٰنِسَاۗءَ
النَّبِيِّ لَسْتُنَّ﴾کی تفسیر کرتے ہوئےسید مودودیؒ لکھتے ہیں :
“ان آیات میں خطاب نبی
کریم ﷺ کی بیویوں سے کیاگیا ہے مگر مقصود تمام مسلمان گھروں میں ان اصلاحات کو
نافذ کرنا ہے ،جب حضوراکرم ﷺ کے گھرسے اس پاکیزہ عمل کی ابتدا ہوگی تو باقی
مسلمانوں کےلیے اک نمونہ ہوگا ۔ ان آیات میں جو کچھ فرمایا گیا ہے کونسی بات ایسی
ہے جو حضوراکرم ﷺ کی ازواج کے لیے خاص ہو اور باقی مسلمان عورتوں کے لیے مطلوب نہ
ہو؟ کیا کوئی معقول دلیل ایسی ہے جس کی بنا ء پر ایک ہی سلسلہ کلام کے مجموعی احکا
م میں سے بعض کو عام اور بعض کو خاص قرار دیاجائے۔ ؟” ([15])
الحاصل دو قسم
کی آراء سامنے آئی ہیں ۔
uاحکام حجاب ازواج مطہرات
کے ساتھ خاص ہیں ۔
vاحکام حجاب ازواج مطہرات
سمیت تمام خواتین اسلام کے لیے ہیں ۔
دعوی تخصیص
کا جائزہ :
(الف) ﴿لَسْتُنَّ
كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَاۗءِ اِنِ اتَّــقَيْتُنَّ﴾میں جو ازواج مطہرات کو خطاب
ہورہاہے ۔یہ خطاب خاص نہیں بلکہ خطاب مواجہۃ(متوجہ کرنا)ہے ۔جس کی تفصیل درج ذیل
ہے ۔
۳)خطاب مواجہۃ :
جس میں لفظی
طور پر خطاب حضوراکرم ﷺ کو متوجہ کرکے کیا
گیا ہو([16])مگر معنوی طور پر وہ حکم اوراس کابجالانا تمام امت کے لیے ہو ۔
جیسا کہ ارشاد
باری تعالی ٰ ہے :
“
آفتاب کے ڈھلنے سے رات کے
اندھیرے تک نماز پڑھا کرو۔”
لہذا زوال شمس
کے بعد نماز (ظہر)کا پڑھنا آپ ﷺ کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ جو بھی مکلف اس وقت کو
پائے گا اس پر نماز کا پڑھنا لازمی ہوگا ۔اور اسی طرح ارشاد باری تعالی ہے:
“سو جب تو (اے نبی )قرآن پڑھنے لگے تو شیطان مردود سے اللہ کی
پناہ لے۔”
اسی طرح جو بھی قرآن کریم کی تلاوت کرے گا اس کے لیے استعاذہ(پناہ مانگنے
)کایہ حکم ہے ۔
مذکورہ بالا تمام مثالوں میں خطاب حضوراکرمﷺ کو کیا گیاہے مگر حکم تمام امت کو
شامل ہے ۔
مذکورہ بالابحث سے یہ بات واضح ہوئی کہ قرآن کریم کا
خطاب ہرجگہ خاص نہیں ہوتا بلکہ کبھی متوجہ کرنے کے لیے بھی ہوتاہے ۔اسی طرح زیر
بحث مسئلہ میں ازواج مطہرات کو ﴿لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ
مِّنَ النِّسَاۗءِ اِنِ تَّــقَيْتُنَّ﴾سے جو خطاب ہورہاہے وہ خطاب“ مواجہۃ”ہے ۔نبی کریم ﷺ کی ازواج کو متوجہ
کرنا مقصود ہے کہ تم اپنے آپ کو عام عورتوں کی طرح نہ سمجھنا بلکہ تم نبی ﷺ کی
بیویاں ہو لہذا تمہیں آئندہ بیان ہونے والے احکام کی نہایت پابندی کرنی ہوگی ۔اس
لیے کہ دوسری خواتین اسلام تم سے سیکھیں گی ۔لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ احکام
شریعت صرف تمہارے لیے ہیں اور عام خواتین اسلام ان سے مستثنی ہیں ۔
(ب) ﴿لَسْتُنَّ
كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَاۗءِ اِنِ تَّــقَيْتُنَّ﴾سےجو ازواج مطہرات کی
تخصیص معلوم ہورہی ہے وہ ان معنوں میں نہیں کہ“ احکام حجاب” صرف انہی کے ساتھ خاص ہیں
بلکہ ان معنوں میں ہے کہ تم محض عام عورتوں کی طرح انسا ن نہیں ہو بلکہ تم میں وہ
صفات ہیں جو عام عورتوں میں نہیں ہیں مثلا تم
جمیع مومنین کی امہات اور خیرالمرسلین کی زوجات ہو۔اس لیے اور اہتمام کا
مظاہرہ کرو۔
(ج) اگر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ﴿لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ
مِّنَ النِّسَاۗءِ اِنِ اتَّــقَيْتُنَّ﴾سےاحکام حجا ب کی ازواج مطہرات کے
ساتھ تخصیص ہےتو اس کا یہ مطلب قطعا نہیں کہ یہ احکام دوسری مسلمان عورتوں کے
لیےنہیں ہیں ۔بلکہ تخصیص ان معنوں میں ہے
کہ ان کے لیے احکام حجاب میں“ شدت”ہے کہ وہ نابینا سے بھی پردہ کریں گی ۔جبکہ عام مسلمان عورت
کو نابیناسے پردہ کرنا ضروری نہیں ہے ۔جیساکہ حضرت ابن مکتوم کی آمد پر ازواج
مطہرات جو اس وقت موجود تھیں آپ ﷺ نے انہیں پردہ کرنے کاحکم دیا ۔نابینا سے پردہ
کا حکم یہ ازواج مطہرات کی حرمت اورعظمت کی وجہ سے ان کےساتھ خاص ہے۔ ([19])،امام ابوداؤدؒ نے بھی اس
حکم کو ازوا ج مطہرات کے ساتھ خاص قرار دیاہے ۔چنانچہ وہ حدیث ام سلمہ ؓ (جس میں حضرت ابن مکتوم ؓ کے
آنے پر پردہ کا ذکر ہے )کو نقل کرکے
لکھتے ہیں :
“یہ حکم
ازواج مطہرات کے ساتھ خاص ہے اور اس کی دلیل یہہے حضوراکرم ﷺنےفاطمہ بنت قیس کو
ابن مکتوم ؓ کے پاس عدت گزارنے کاحکم دیا کہ اگرتم اپنے کپڑے بھی اتار دو گی( تو کسی قسم کا کوئی حرج نہیں ہے)
اس لیے کہ وہ ایک نابینا شخص ہے۔” ([20])
اسی طرح امام
احمد بن حنبل ؒ نے بھی حدیث ام سلمہ ؓ کو ازواج مطہرات کے ساتھ خاص قرار دیاہےاور
حدیث فاطمہ بنت قیس ؓ کو عام عورتوں کے لیے قرار دیا ہے ۔ ([21])
(د) ﴿لَسْتُنَّ
كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَاۗءِ اِنِ اتَّــقَيْتُنَّ﴾سےاحکام کی تخصیص مراد
نہیں، بلکہ ان پرعمل کے اہتمام کی ہے کہ
ازواج مطہرات کی شان اور فضیلت چونکہ عام
عورتوں سے زیادہ ہے اس لیےجو احکام تمام مسلمان عورتوں پر فرض ہیں ان کو زیادہ اہتمام کرنا چاہیے۔ ([22])
باقی رہا شیخ
قرضاوی کا یہ کہنا کہ ازوا ج مطہرات کو
نافرمانی پر دگنا عذاب اور اعمال صالحہ پر دگنا ثواب ملے گا یہ ان کی خصوصیت ہے تو
یہ بھی قابل تسلیم نہیں ۔اس لیے کہ ازواج مطہرات کے علاوہ اور لوگ بھی ہیں جن
کونافرمانی پر دگنا عذاب کی وعید اور اعمال صالحہ پر دہرے اجر کی نوید سنائی گئی
ہے ۔
ارشاد باری
تعالی ہے:
“اور جو نہ توﷲکے سوا کسی اور معبود کو پکارتے
ہیں اور نہ وہ کسی ایسی جان کو قتل کرتے ہیں جس کے قتل کوﷲنے حرام کر رکھا ہو مگر
حق کے ساتھ اور نہ ہی وہ زنا و بدکاری کا ارتکاب کرتے ہیں جس شخص نے یہ کیا وہ
گناہ میں جا پڑا،قیامت کے دن اس کو دگنا عذاب ہوگا اور ذلت و خواری سے اس میں ہمیشہ
رہے گا۔”([23])
اسی طرح ایک حدیث میں ہے نبی
کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
“تین آدمیوں کو دوہرا ثواب دیا جائے گا جس شخص
کے پاس باندی ہو اور اس نے اسے اچھی تعلیم دی اور اسے اچھا ادب سکھایا، پھر اسے
آزاد کرکے اس سے نکاح کرلیا اسے دوہرا ثواب ملے گا، اور جو شخص اہل کتاب میں سے
اپنے نبی پر اور مجھ پر ایمان لائے اس کو بھی دوہرا ثواب ملے گا اور جو غلام اپنے
مالک اور اپنے خدا کا حق ادا کرے تو اس کا دگنا ثواب ہے۔”([24])
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ
عنہ کی اہلیہ حضرت زینب ؓ بیان فرماتی ہیں:
“میں نے رسول
اللہ ﷺ سے پوچھا میرا اپنے خاوند پر اور ان یتیموں پر جو میری پرورش میں خرچ کرنا
صدقہ میں کافی ہوگا ؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا زینب
کو دہرا اجر ملے گا صدقہ کا ثواب اور صلہ رحمی کا ثواب۔ ” ([25])
مندرجہ بالا نصوص سے معلوم ہوا کہ اعمال صالحہ پر دگنا اجروثواب
اور نافرمانی پر دہرا عذاب یہ ازواج مطہرات کے ساتھ خاص نہیں ہے ۔
باقی رہی یہ بات کہ ازواج مطہرات
کے ساتھ حضورﷺ کی وفات کے نکاح کیوںمنع ہے ۔اس بارے میں علامہ ابن کثیر ؒ
لکھتےہیں:
“کسی شخص نے آپﷺ کی کسی بیوی سے آپﷺکی وفات کے بعد نکاح کرنے کاارادہ کیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی
،تمام اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ
حضورﷺ کی بیویاں دنیا اورآخرت میں
بھی آپﷺ کی بیویاں ہیں اور تمام مسلمانوں کی وہ
مائیں ہیں اس لیے مسلمانوں پر ان سے نکاح کرنا حرام ہے ۔”([26])
دعوی تخصیص سے مانع دلائل :
احکام حجاب کا
ازواج مطہرات کے ساتھ خاص کرنے سے درج ذیل وجوہ مانع ہیں ۔
۱۔ قرآن کریم میں حجاب کے حوالہ سے
خطاب عام ہے :
﴿ يٰٓاَيُّهَا
النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَاۗءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ
عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ ۭ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا
يُؤْذَيْنَ
ۭ﴾([27])
“اے نبی!اپنی بیویوں سے اور اپنی بیٹیوں سے اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دیجئےکہ وہ اپنے اوپر
چادریں لٹکایا کریں ۔اس سے بہت
جلد ان کی شناخت ہو جایا کرے گی پھر ستائی نہ جائیں گی۔”
اس آیت میں ازواج مطہرات ،بنات رسول اور امت کی عام عورتوں کو جلباب کے ساتھ
گھروں سے باہر نکلنے کاحکم دیا جارہاہے ۔
جلباب کا
مفہوم :
علامہ ابن حزم
ؒ(م 456ھ)لکھتےہیں:
“اور جلبا ب ،لغت عرب میں وہ زبان جس میں نبی کریم ﷺ گفتگو
فرمایا کرتے تھے ،اس کپڑے کو کہا جاتاہے جو تمام بدن کو ڈھانپ لے اور جو کپڑا تمام
بدن کو نہ ڈھانپے اسے جلباب نہیں کہتے ۔”([28])
مندرجہ بالا
حوالہ سے جلباب کی وضاحت تو ہوگئی لیکن کیا اس جلباب سے چہرہ بھی چھپایا جائے گا ؟
اس کی کیفیت پوری طرح واضح نہیں ہے اس کے لیے ضرورت یہ پیش آئی کہ دیکھا جائے اس
آیت کی مخاطبات جن کوقرآن مجید نے جلباب اوڑھ کر باہر نکلنے کا حکم دیا ہے ان کے
لیے کسی دوسرے مقام پر حجاب کا حکم ہو۔اور اس کی کیا کیفیت ہے ؟
اس لیے کہ
تفسیر قرآن کا مشہور اصول ہے :
“قرآن کریم کا بعض دوسرے بعض
کی تفسیر کرتاہے ۔ ”
تو
ازواج مطہرات کے حوالہ سے احکام حجاب واضح مل گئے﴿وَاِذَا
سَاَلْتُمُوْهُنَّ مَتَاعًا فَسْـَٔــلُوْهُنَّ مِنْ وَّرَاۗءِ حِجَابٍۭ ﴾جن کوشیخ
قرضاوی نے ازواج مطہرات کے ساتھ خاص قرار دیاہے۔اور اسی طرح ازواج مطہرات کو
خطاب ہوا ﴿وَلَا
تَبَرَّجْنَ تَــبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْاُوْلٰى﴾اوراس
آیت کی تفسیر میں امام ابن جریر طبری ؒ(م 310ھ )لکھتے ہیں:
“تبرج سے مراد زینت کا اظہار ہے اور عورت کا اپنے محاسن کا
مردوں کے لیے ظاہر کرناتبرج کہلاتا ہے۔”
([30])
عورت کے محاسن میں اس کا چہرہ بھی شامل ہے ۔چنانچہ شمس
الائمہ سرخسی ؒ(م483ھ)لکھتے ہیں:
چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اہل علم کا اتفاق ہے کہ ازواج مطہرات کے لیے حکم حجاب
فرض تھا ۔([32])اس آیت جلباب
میں ازواج مطہرات کو بنات رسول اور امت کی عام عورتوں کو ایک جیسا ہی خطاب ہورہاہے
۔اگر ازواج مطہرات کے لیے حجاب کے احکامات فرض نہیں تو پھر ان کے لیے بھی فرض نہ ہونگے اور
اگر ان کے لیے فرض ہیں تو پھر ان کے لیے
بھی ہونگے کیونکہ ایک ہی سیاق میں حکم دیا جارہاہے ۔چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اکثر مفسرین نے ﴿يُدْنِيْنَ
عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ ﴾سے
چہرے کا پردہ مراد لیاہے ۔
امام ابن جریرطبریؒ (م 310ھ)لکھتے ہیں :
“مسلمان
عورتیں جب گھروں سے نکلیں تو لونڈیوں کے ساتھ لباس میں مشابہت اختیار کرتے ہوئے
اپنے بالوں اورچہروں کو کھلانہ رکھیں ،بلکہ اپنے اوپر اپنی چادر لٹکالیا کریں تاکہ
معلوم ہوجائے کہ وہ آزاد عورتیں ہیں اور فاسقین کی اذیت دہ باتوں سے بچ سکیں ۔ ” ([33])
امام ابو بکر جصاص رازیؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
“یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے
کہ نوجوان عورت کوحکم دیا گیاہے کہ اجنبی مردوں سے اپنے چہرے کو چھپائے،اوروہ اس
بات پر بھی مامورہے کہ گھر سے باہرنکلتے وقت ستر اور اور عفت مآبی کا اظہار کرے
تاکہ مشکوک افراد ان سے غلط امید وطمع نہ کرپائیں۔”([34])
اما م قرطبیؒ لکھتے ہیں :
“چونکہ عرب خواتین میں کچھ
چھچھورا پن باقی تھا اور وہ لونڈیوں کی طرح اپنے چہروں کو کھلارکھتی تھیں اور ان
کا یہ فعل مردوں کو ان کی طرف دیکھنے اور ان کے حوالے سے منتشر خیالی کا باعث تھا
تو اللہ تعالی نے اپنے رسول ﷺ کو یہ حکم دیا کہ عورتوں کو اپنے اوپر چادریں لٹکانے
کاحکم دیں جب بھی وہ اپنی ضرورت کے تحت باہرنکلنے کاارادہ کریں ۔”([35])
قاضی بیضاویؒ(م 685ھ)لکھتے ہیں :
“وہ اپنے چہروں اور بدنوں
کو اپنی چادروں سے ڈھانپ لیں جبکہ وہ کسی حاجت کے لیے باہرنکلیں ،اورمن تبعیض کے
لیے ہے یعنی عورت اپنی چادر کے بعض حصے کولٹکالے اور بعض کو لپیٹ لے ۔”([36])
امام نسفیؒ(م 710ھ)لکھتے ہیں :
“﴿يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ
جَلَابِيْبِهِنَّ
﴾ کا معنی یہ ہےکہ وہ جلابیب (چادروں)کو اپنے اوپر لٹکالیں ،اوران سے اپنے چہروں
اورپہلوؤں کو ڈھانپ لیں۔ اگر عورت کے چہرے سے کپڑا،ہٹ جائے تو کہاجاتاہے اپنے کپڑے
کو اپنے چہرے کے قریب کرو۔ ” ([37])
مندرجہ بالا مفسرین کی
رائے بھی یہی ہے کہ احکام حجاب عام ہیں ۔
۲۔ مشہور اصول ہے:
“اعتبار الفاظ کے عموم کا
ہوگا نہ کہ سبب نزول کے ساتھ خاص واقعہ کا۔”
لہذا ان آیات
حجاب کے احکام کو ازواج مطہرات کے ساتھ
خاص کرنے کی بجائے عام قرار دیناراجح ہے ۔وگرنہ تو بہت سارے قرآن کریم کے احکام
جو کسی نہ کسی خاص سبب یا واقعہ پر نازل ہوئے تھے وہ بھی اپنے مورد پر بند ہوجائیں
گے ۔جس سے سے سہولت کی بجائے“ حرج”واقع ہوگا ۔
امام فخرالدین رازیؒ(م 606ھ) لکھتے ہیں:
“اور تحقیق اصول فقہ میں یہ
بات ثابت ہے کہ اعتبار الفاظ کے عموم کا ہوتاہے نہ کہ سبب نزول کے ساتھ خاص واقعہ
کا ،کیا تو نہیں دیکھتا اللہ تعالی کے اس قول کو:بے شک اللہ نے اس عورت کی بات سن لی ہے جو آپ سے اپنے
خاوند کے بارے میں جھگڑتی تھی(مجادلہ :1)یہ آیت ایک عورت کےبارے میں نازل ہوئی اور اس حکم میں سارے افراد مراد ہیں ۔” ([39])
چنانچہ یہ بات واضح ہوئی کہ جس
طرح سورۃ مجادلہ کی ابتدائی آیات حضرت
خولہ بنت ثعلبہ ؓ کے بارے میں نازل ہوئی تھیں جن کے شوہر نے ان سے ظہار کیاتھا لیکن
آیت میں جن الفاظ کے ساتھ حکم ظہار بیان کیا گیا وہ حکم صرف حضرت خولہ ؓکےشو ہر
کے ساتھ خاص نہیں بلکہ تمام ان لوگوں کے
لیے ہے جو اپنی بیویوں کے ساتھ ظہا ر کرلیں ۔اسی طرح حجاب کے احکامات میں خطاب
ازواج مطہرات کو ہورہاہے مگر اس حکم میں تمام عورتیں شامل ہیں ۔
۳۔ ازواج مطہرات کو جو احکامات دیے
گئے ہیں ۔ان میں نماز کا قیام اور زکوۃ کی ادائیگی ،قول معروف کے ساتھ اللہ اور اس
کے رسول ﷺ کی اطاعت کا حکم ہے جب یہ احکامات تمام خواتین کے لیے ہیں تو پھر کیا
وجہ ہے کہ قرار فی البیت،حجاب،لوچ دارآواز میں بات کرنے سے اجتناب ،تبرج جاہلیت
کی ممانعت صرف ازواج مطہرات کے ساتھ ہی خاص ہوں ۔کیا احکام شرعیہ صرف ازواج مطہرات
کے لیے تھے ؟صحابہ کرام ؓ کی نظر ازواج مطہرات کی طرف عزت وعظمت اور احترا م سے بھر پور تھی اس کے باوجود جب ان کے لیے احکام
حجاب کی پاسداری ضروری تھی تو عام عورتوں
کے لیے بطریق اولی ہونی چاہیے ان لہذا یہ قول اختیار کرنا کے یہ احکامات تمام
عورتوں کے لیے ہیں ان آیات کے سیاق وسباق کے موافق ہے ۔
۴۔قرآن مجید کی تعلیمات تمام لوگوں کے لیے ہیں ۔
جیساکہ ارشاد ربانی ہے :
“اور وحی کے
ذریعے بھیجا گیا میری طرف یہ قرآن تاکہ اس کے ذریعے میں خبردار کروں تم لوگوں کو
بھی اور ہر اس شخص کو بھی جس کو یہ پہنچے۔”
اور یہ بات
پیچھے گزر گئی ہے کہ حکم میں عمومیت کا اعتبار ہوتاہے ۔اور قرآن مجید میں جو خطاب
خاص طور پر انبیاءعلیھم السلام کو کیا
گیاہے وہ اہل ایمان کو بھی شامل ہے ۔
جیساکہ حدیث
میں ہے :
“اللہ نے
مومنین کو بھی وہی حکم دیا ہے جو اس نے رسولوں کو دیا”
لہذا جب
مومنین ،انبیاء کے خطاب میں داخل ہیں۔تو اہل ایمان کی عورتیں ،امہات المومنین کے
خطاب میں بطریق اولی داخل ہونگی ۔رہا قرآن کریم کا خاص ازواج
مطہرات کو مخاظب کرنا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ خطاب بھی ان کے ساتھ خاص ہے تا
وقتیکہ کوئی دلیل صریح وصحیح وقطعی پائی
جائے جس سے تخصیص کا پہلو نکلتا ہو ۔اور عمومی معنی مراد لینے میں کوئی دشواری ہو
۔جیسا کہ خصائص نبویﷺؑ کو بیان کرتے ہوئے
قرآن مجید کا اسلوب ہے ۔
﴿وَامْرَاَةً مُّؤْمِنَةً اِنْ وَّهَبَتْ
نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ اِنْ اَرَادَ النَّبِيُّ اَنْ يَّسْتَنْكِحَهَا ۤ خَالِصَةً
لَّكَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَ﴾([42])
“اور اس
مسلمان عورت کو بھی(آپ ﷺکے لیے حلال کردیاہے )
جو بلاعوض اپنے کوپیغمبر کو دیدے
بشرطیکہ پیغمبر اس کو نکاح میں لانا چاہے یہ خالص آپ کے لیے ہے نہ اور مسلمانوں کے
لیے”
اس آیت میں﴿خَالِصَةً
لَّكَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَ ﴾کا جملہ اس حکم کی آپ ﷺ کے ساتھ تخصیص کو بیان
کررہاہے ۔
اوراسی طرح
قرآن مجید میں ہے :
“آپ کے لئے
(اے پیغمبر !)اس کے بعد اور عورتیں حلال نہیں۔”
اس قسم کا
کوئی زائد جملہ جو محض خطاب کے علاوہ
تخصیص پر دلا لت کرنے والاہو تو پھر اس
خطاب کا ازواج مطہرات کے ساتھ خاص ہونا مراد لیا جاسکتاہے
۵۔ مشہور اصول ہے :
“بے شک احکام اپنے وجود وعدم میں علل کے ساتھ پائے جاتے ہیں
”
اور آیت حجاب﴿وَاِذَا
سَاَلْتُمُوْهُنَّ مَتَاعًا فَسْـَٔــلُوْهُنَّ مِنْ وَّرَاۗءِ حِجَابٍ﴾میں گو ظاہری طور پر ازواج
مطہرات سے حجاب کی آڑ میں سوال کرنے کاحکم ہے مگر یہ حکم تمام خواتین کو شامل
ہےاس لیے کہ قرآن کر یم نے اس سے اگلے جملے میں اس کی“ علت”بیان کرتے ہوئے مزید وضاحت فرمائی﴿ ذٰلِكُمْ
اَطْهَرُ لِقُلُوْبِكُمْ وَقُلُوْبِهِنَّ ۭ ﴾“یہ طریقہ تمہارے دلوں کے
لیے بھی اور ان کے دلوں کے لیے بھی زیادہ پاکیزگی کاسبب ہے۔”انتہائی واضح اور صریح الفاظ میں وضاحت کررہاہے کہ اس حکم کااطلاق تمام عورتوں
پر ہوتاہے ۔اب ظاہر ہے کہ دلوں کی
پاکیزگی صرف ازواج مطہرات ہی کے لیے مطلوب نہیں بلکہ تمام مسلمان عورتوں کے لیے
مطلوب ہے ،اس لیے آیت کے حکم کو کچھ خاص عورتوں میں منحصر کرنا کیسےدرست ہوسکتاہے
۔؟
۶۔ قرآن مجید بعض مرتبہ انبیاء اور صحابہ کرام ؓ کو خاص طور
مخاطب کرتاہے جس میں اس طرف اشارہ ہوتاہے کہ ان کے علاوہ دوسرے لوگ بھی اس حکم میں شامل ہیں ۔اور شریعت کا یہ اسلوب
بہت سے مقامات پر ہے ۔کہ جب اعلی اور اشرف فرد کو ایک حکم کا پابند کیا گیاتواس کا
غیر بھی اس حکم میں بطریق اولی شامل ہوگیا
۔اس کی بے شمار مثالیں قرآن وسنت میں موجو ہیں ،مثلا حضرت
موسیؑ اور حضرت ہارون ؑ کو جب اللہ تعالی نے فرعون کے پاس تبلیغ کے لیے بھیجا تو
فرمایا:
﴿ فَقُوْلَا
لَهٗ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهٗ يَتَذَكَّرُ اَوْ يَخْشٰى ﴾ (طہ :44)
“پھر بھی تم دونوں اس سے بات نرمی ہی سے کرنا کہ
شاید وہ نصیحت قبول کر لے یا عذاب سے ڈر جائے”
اس میں تبلیغ کا بڑا اہم اصول بیان کیاگیاہے کہ نرمی سے گفتگو کی جائے لہذا جس
طرح یہ حکم حضرت موسی ؑکو دیا گیا اسی طرح
امت محمد یہ کے لیے بھی ہے کہ دعوت دین دیتے وقت نرم لہجہ اختیار کرناہے ۔اسی طرح
حضوراکرم ﷺ کو بے شمار مقام پر مخاطب کرکےقران مجید میں حکم دیا گیاہے لیکن وہ حکم امت کے لیے بھی ہے جیساکہ قرآن مجید میں بہت سی
مثالیں موجود ہیں ۔
اسی طرح حدیث
میں ہے :
اس حدیث میں
خاص طور پر حضرت فاطمہ ؓ کا ذکر ہے مگر اس طرف اشارہ ہے کہ جب ان کے لیے کوئی
رعایت نہیں تو عام خواتین کے لیے کیسے گنجائش نکل سکتی ہے ۔؟اسی طرح ایک اور حدیث
میں ہے :
اس حدیث میں
خاص طور پر حضرت عباسؓ کا ذکر ہے جب ان کا سود معاف کردیا گیا تو باقی لوگوں کے
لیے بھی اس حکم کی پابندی ضرور ی ہوگئی ۔
اسی طرح حدیث
میں ہے :
اس حدیث میں
حارث بن عبدالمطلب کا خون معاف کرنے کا ذکر ہے تاہم اس سے مقصود یہ ہے کہ اس کے
علاوہ اور بھی جتنے خون زمانہ جاھلیت میں ہوئے وہ معاف ہیں ۔بہرکیف ان تمام مثالوں
سے واضح ہوا کہ شریعت کا خاص طور کسی کو مخاطب کر کے حکم لگانا ضروری نہیں کہ اسی
فرد کے ساتھ خاص ہو، بلکہ اس کو اپنےعموم پر باقی رکھا جائے گا اور جہاں کوئی دلیل تخصیص
جو عمومی معنی مراد لینے پر مانع ہو وہاں پھر تخصیص کا قول کیاجائے گا ۔
۷۔ احکام حجاب کے نزول سے پہلے گوحجاب کا التزام نہ تھا تاہم شرفاء کے گھرانوں میں حجاب کا اہتمام تھا ۔جیسا کہ حضرت
ام سلمہ ؓ کے واقعہ سے معلوم ہوتاہے ۔حضرت حبیب بن ابی ثابت فرماتے ہیں:
“حضرت ام سلمہ ؓ نے فرمایا : جب میں ابو سلمہؓ کی وفات کے
بعد عدت گزار رہی تھی تو نبی کریم ﷺ میرے پاس تشریف لائے ،آپ ﷺنے مجھ سے بات کی
،میرے اور آپ ﷺکے درمیان “حجاب ”تھا اور آپ ﷺ نے مجھے پیغام نکاح دیا ۔”([48])
اسروایت سے
واضح معلوم ہورہاہے کہ نبی کریم ﷺنے جب
حضرت ام سلمہ ؓ سے بات چیت کی اور پیغام نکاح دیا تو وہ “حجاب ”میں
تھیں
۔حالانکہ اس وقت احکام حجاب نازل نہیں ہوئے تھے ۔ابن سعدؒ(م 230ھ)نے حضرت ہندہؓ زوجہ حضرت ابوسفیان ؓکی شادی کا واقعہ بڑی
تفصیل سےنقل کیا ہے جس میں ان کے پردہ کا ذکر ہے ۔([49]) حضرت زینب بنت جحش ؓ کے
نکاح کے وقت پہلی آیت “حجاب” نازل ہوئی ہے اس کے نازل ہونے سےپہلے بھی حدیث میں
ان کی گھرمیں نشست کی یہ صورت بیان کی گئی ہے ۔ “اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ دیوار کی
طرف رخ کئے ہوئے بیٹھی ہوئی تھیں۔”([50])حالانکہ
احکام حجاب بعد میں نازل ہوئے ،قابل غور بات یہ ہے کہ جس معاشرہ میں ابھی حجاب کے
احکام نازل نہیں ہوئے مگر وہاں حجاب کا اہتمام تھا ۔ تو جب باقاعدہ شریعت نے ان
احکام کو بیان کیا تو پھر مسلمان عورتوں نے ان کوعام کیوں نہ سمجھا ہوگا ۔
۸۔ قرآن وحدیث پر غور وفکر بھی اس
بات کا موید ہے کہ اس مقام پر آیات کی ازواج مطہرات کے ساتھ تخصیص کرنا دوسری
آیات قرآنی اور احادیث نبوی ﷺ کےبالکل خلاف ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ یہ سارے احکام
تمام مسلمان عورتوں کے لیے ہیں ۔
جیسا کہ حدیث
میں ہے :
حضرت اسماء ؓ کا واقعہ،فاطمہ بنت منذر بیان کرتی ہیں ۔
“کہ ہم حالت احرام میں خمار سے اپنے منہ ڈھانپتی تھیں اور اسما بنت ابی ابکر صدیق ہمارے ساتھ ہوتی تھیں۔”([51])
حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ بھی ازواج مطہرات میں سے نہیں ہیں
مگر وہ بھی اپنے چہرہ کو اجنبیوں سے چھپاتی تھیں ۔معلوم ہوا “احکام حجاب”ازواج مطہرات کے ساتھ خاص نہیں
تھے بلکہ دیگر صحابیات ؓ نے بھی ان احکام کو عام سمجھا تھا ۔
اسی طرح حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے:
((قَالَتْ کَانَ
الرُّکْبَانُ
يَمُرُّونَ بِنَا وَنَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ مُحْرِمَاتٌ فَإِذَا حَاذَوْا بِنَا سَدَ لَتْ إِحْدَانَا جِلْبَابَهَا
مِنْ رَأْسِهَا عَلَی وَجْهِهَا فَإِذَا جَاوَزُونَا کَشَفْنَاهُ )) ([52])
“ کہ (دوران حج و عمرہ) سوار
ہمارے سامنے سے گذرتے اور ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ احرام باندھے ہوئے ہوتے پس جب
سوار ہمارے سامنے آجاتے تو ہم اپنے جلباب اپنےسر سے منہ پر ڈال لیتیں اور جب وہ گذر جاتے تو
ہم پھر منہ کھول لیتے۔”
حضرت عائشہ ؓ کی اس روایت میں “ نحن” (ہم ) کا لفظ اس بات پر دلالت
کررہاہے کہ ان کے ساتھ اور بھی خواتین شریک تھیں ۔
شیخ قرضاوی کے اعتراضات :
1۔ اس
حدیث کی سند میں یزید بن ابی زیادراوی موجود ہے جس پر کلام کیاگیاہےاور اس کے ضعیف
ہونے کی وجہ سے احکام میں اس کی روایت قابل حجت نہیں ہے ۔
2۔ یہ
حضرت عائشہ ؓ کافعل ہے جس سے وجوب پر استدلال کیا نہیں کیا جاسکتااس لیے کہ فعل
رسول ﷺ بذات خودوجوب پردلالت نہیں کرتاچہ جائیکہ کسی اور کے فعل سے وجوب کا قول
کیا جائے ۔
3۔ ہوسکتاہے کہ یہ ازواج مطہرات کی خصوصیت ہو؟
جوابات:
پہلے اعتراض کا جواب:
سندکے لحاظ سے
یہ حدیث صالح للاستدلال اور قابل حجت ہے ۔اس لیے کہ امام ابو داؤدؒ(م275ھ)نےاس حدیث کو نقل کرنے کے بعد سکوت اختیار کیاہے
اور جس حدیث پر امام ابوداؤد سکو ت فرمائیں وہ قابل حجت ہوتی ہے ۔
چنانچہ اپنے
اس رسالہ میں جو اہل مکہ کے نام ہے۔لکھتے ہیں:
“جس حدیث پر میں کوئی کلام نہ کروں اس کوصالح (قابل
حجت )سمجھنا چاہیے ۔”
اسی طرح نسائی شریف میں بھی یزیدبن
ابی زیاد کی روایت موجود ہے۔([57]) اور
قوت سند کے اعتبار سے بخاری ومسلم کے بعد نسائی شریف ہے ۔([58])
امام ترمذی ؒ(م279ھ)نےبھی یزید بن ابی زیاد
کی روایات ذکر کی ہیں اور متعددمقامات پران کی تحسین فرماتے ہوئے“ حسن صحیح ”کے الفاظ استعمال کیے ہیں ۔([59])
اور ایک مقام پر سنن ترمذی میں لکھتے ہیں:
مندرجہ بالا تصریحات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ یزید بن ابی زیاد قابل
اعتماد اور جائز الحدیث راوی ہے ۔چونکہ آخری عمر میں ان کا حافظہ متغیر ہوگیا تھا
اس لیے ان پر ضعف کا قول کیا گیا ۔تاہم جنہوں نے آخری عمر سے پہلےسماع حاصل کیاان
کی روایات صحیح اورمعتبر ہیں ۔
حافظ ابن حجر عسقلانیؒ(م 852ھ)لکھتے ہیں:
قال ابن حبان كان صدوقا إلا أنه لما كبرساءحفظه وتغيروكان يلقن مالقن فوقعت
المناكير في حديثه فسماع من سمع منه قبل التغير صحيح ([61])
“ابن حبان ؒ نے کہا یزید بن ابی زیاد سچا راوی ہے لیکن جب وہ
بوڑھے ہوگئے تو ان کاحافظہ خراب ہوگیا اورتلقین قبول کرنے لگے ،جس کی وجہ سے ان کی
روایت میں اوپری چیزیں آگئیں ،لیکن تغیر حافظہ سے پہلے جس نے ان سے روایات سنی وہ
صحیح ہیں ۔”
اس سے معلوم ہوا کہ یزید بن ابی زیاد سے جن روایوں نے تغیر حافظہ اور اخیری
زمانہ سے پہلے سماع حاصل کیا ان کی روایات صحیح اورقابل اعتبار ہیں ۔چنانچہ اما م
بیہقی(م 456ھ)نے چندراویوں کے نام
ذکرکیے ہیں جنہوں نے یزید بن ابی زیاد سے اول عمرمیں ،تغیر حافظہ کے زمانے سے قبل
سماع حاصل کیا ان میں ،شعبہ،سفیان ثوری،اور ہشیم وغیرہ شامل ہیں ۔ ([62])زیر بحث یزید بن ابی زیاد
کی روایت میں اس کاشاگر د ہشیم موجود ہے اور یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ہشیم نے ان سے تغیر حافظہ سےقبل سماع حاصل کیاہے لہذا
یہ روایت صحیح، قابل حجت اور صالح للاستدلال
ہے ۔جب کہ زیر بحث روایت کے ہم معنی روایات موجود ہیں جن کو بطورتائید کے پیش
کیاجاسکتاہے۔جیسا کہ حضرت اسماء ؓ کا واقعہ پیچھے ذکر کیا گیا ہے ۔یہ روایت یزیدابن ابی زیاد کی روایت کے ہم معنی ہیں
چنانچہ اگران کا ضعیف ہونا تسلیم بھی کرلیا جائے تو اس روایت کی وجہ سے ان کا ضعف مندفع ہوگیا ۔
دوسرے اعتراض کا جواب:
۱۔ حضرت عائشہ ؓ کا یہ فعل حضوراکرمﷺ کی موجود
گی میں ہے ۔اور جوکام آپ ﷺکی موجودگی میں ہو اور آپ ﷺ اس پر سکوت اختیار فرمائیں
وہ حدیث تقریر میں داخل ہے۔([63])اور حدیث تقریر سے
استدلال کیا جاسکتاہے ۔
امام نووی ؒ لکھتے ہیں:
۳۔ اگر ایک صحابی ؓ کی بات دوسر ے صحابہ ؓ تک
پہنچے اور وہ اس پر انکار نہ کریں تو وہ اجماع کہلاتاہے ۔اور جو چیز اجماع سے ثابت
ہو اس پر عمل کرنا ضروری ہے ۔([65])
حضرت عائشہ ؓ کی اس روایت پر کسی صحابی ؓ کا اعتراض اور انکار منقول نہیں ہےجس
سےیہ بات واضح ہوئی کہ یہ روایت سالم عن المعارض ہے اوراس سے استدلال کیا جاسکتا ہے ۔
فعل رسولﷺ سے وجوب کا ثبوت:
باقی شیخ قرضاوی کاعلی الاطلاق یہ
کہنا کہ فعل رسول ﷺ سے وجوب ثابت نہیں ہوتا یہ کلام محل نظر ہے۔
اس لیے کہ فعل رسول ﷺسے عدم وجوب کا قول اس وقت کیا جاسکتاہےجب کوئی دلیل
تخصیص پائی جائے کہ وہ فعل آپ ﷺ کے ساتھ خاص ہے ۔وگرنہ وہ حکم امت کے لیے بھی
ہوگا ۔([66])معلوم ہوا فعل رسول کی
اقتدا کی جاسکتی ہے ۔
اور مزید یہ کہ فعل رسول ﷺ وجوب
پردلالت کرتاہے ۔ اور عدم وجوب کا قول اس وقت کیاجاسکتاہے جب کوئی ایسی دلیل پائی
جائے جس سے اس فعل کا آپ ﷺ کے ساتھ خاص ہونا پایاجائے پھر یہ کہاجاسکتاہے کہ آ پ
ﷺ کا یہ فعل چونکہ آپ ﷺ ہی ذات کے ساتھ خاص ہے اس لیے امت کے لیے اسے واجب اور
ضروری قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ ([67])
تیسرے اعتراض کا جواب:
احکام حجاب
ازواج مطہرات کے ساتھ خاص نہیں ہیں بلکہ عام خواتین اسلام کے لیےبھی ہیں جس کی
تفصیل پیچھے گزرچکی ہے ۔
قیاس کاتقاضا :
اگر یہ فرض
کرلیاجائے کہ قرآن کریم نے واضح انداز میں ازواج مطہرات کو ہی حجاب کا حکم دیا ہے
اور عام عورتوں کے لیے حجاب کا حکم قرآن مجید میں نہیں ،تواس حوالے سے یہ مسئلہ
غیر منصوص ہوا کہ عام مسلمان عورتوں کے لیے چہرے کا پردہ ہے یا نہیں ہے ؟اور غیر
منصوص مسائل میں قیاس کی طرف رجوع کیا جاتاہے([68]) تواس مسئلے میں بھی قیاس
کی ضرورت ہے ۔ ([69])
قیا س کے چار ارکان ہیں ۔
۱) اصل : جس
کا حکم صراحتا مذکور ہو۔ جیسا کہ
آیت حجاب میں ازواج مطہرات
۲) فرع: جس کاحکم صراحتا مذکور نہ ہو۔ جیسا
کہ عام مسلمان عورتوں کے لیے چہرے کا حجاب
۳) حکم : جو
اصل پرلگایاجارہاہے ۔ پورے
جسم کاچھپانا بشمول چہرے کے
۴) علت : جس کی وجہ سے حکم پایاجارہاہے ۔ پاکیزگی
قلب
قیاس کی صورت:
پاکیزگی قلب
کی علت میں اشتراک واتحاد کی وجہ سے ازواج مطہرات کی طرح عام مسلمان عورتوں کے لیے
بھی پورے جسم کا چھپانا بشمول چہرے کے ضروری ہے ۔لہذا قیاس کا تقاضابھی یہی ہے کہ
جس طرح ازواج مطہرات کے لیے حجاب کے احکامات ہیں ویسے ہی عام مسلمان عورتوں کے لیے
ہونے چاہییں۔
خلاصہ کلام
:
قرآن مجید میں ازواج مطہرات کے لیے جو احکامات حجاب نازل ہوئے ہیں وہ ان کے ساتھ خاص نہیں ہیں بلکہ عام ہیں ۔
اس ضمن میں صدر اول کا اسلامی معاشرہ اپنے
مدنی دور میں“حجاب”کے اسلامی احکام کی پابندی کی وہ قابل تقلید مثالیں
پیش کرتاہے کہ جن کی نظیر چشم فلک نے نہ دیکھی جواس بات بھی پر دلالت کرتاہے کہ ان
احکامات حجاب کو ازواج مطہرات کے ساتھ خاص نہیں سمجھا گیا اور ان کے مطالعہ سے یہ اندازہ بھی ہوتاہے کہ
اسلام میں عورتوں کی عزت وعصمت اور عفت وناموس کی نگہداشت کو کتنی زبردست اہمیت
حاصل ہے ۔ اور اگر ان احکام کاازواج مطہرات کے ساتھ خاص ہونا تسلیم کرلیا جائے
تووہ ان معنوں میں ہے کہ ان کے لیے ان احکام میں سختی ہے کہ وہ نابینا سے بھی پردہ
کریں گی ۔جب کہ عام عورتوں کے لیے نابینا افراد سے حجاب ضروری نہیں ہے ۔
اسلام میں مرداور عورت کے درمیان “حجاب”اور “حد بندی” کا جوتصور
ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ عورتوں کی دنیا مردوں سے بالکل الگ اور مختلف ہے ؟اگر
ایسا ہوتا تو“ حجاب” کے احکام شر یعت میں نہ ہوتے ،قرآن کریم نے عورت
کے گھر سے باہر نکلنے پر پابندی نہیں لگائی ،بلکہ عورت کو زمانہ جاہلیت کی طرح
بناؤ سنگھار کرکے نکلنے پر منع کیا گیا ۔درحقیقت“حجاب
”معاشرے میں مرد اور عورت کی بے ضابطہ آمیزش ،ضرورت سے زیادہ اختلاط سے کو روکنے کے لیے ہے ۔معاشرے اور ماحول کو محفوظ اور
صحت مند رکھنے کے لیے اور ایسی فضا قائم کرنے کے لیے اسلام نے“حجاب” کا اہتمام کیاہے جس میں
عورت بھی معاشرے میں اپنی سرگرمیاںانجام دے سکے اور مرد بھی اپنے فرائض سے عہدہ
برآ ہوسکے۔
حوالہ
جات وحواشی
([16]) نبی کریم ﷺ کو خطاب کے ساتھ متوجہ اس لیے کیا
گیا کہ وہ اللہ تعالی کی طرف بلانے والے ہیں اوراور اللہ تعالی ٰ کی مراد کو بیان
کرنے والے ہیں ۔اس لیے آپ
ﷺ کے نام کو مقد م کیا گیا (نووی،شرح نووی
علی صحیح مسلم ،جلد1،صفحہ204)
البیضاوی،ناصرالدین،قاضی ، انوارالتنزیل واسرارالتاویل،بیروت،داراحیاء التراث العربی، 1418ھ، جلد4،صفحہ238
([44])
الشاطبی ،ابراہیم بن موسی بن محمد اللخمی ،الموافقات(حاشیہ) ،دارابن عفان
،1417ھ،جلد1 ،صفحہ 112،
رشید بن علی رضا،محمد،مجلۃ المنار،ناشر (نامعلوم
)جلد4،صفحہ 493
([62])
البہقی،احمد بن حسین،بن علی بن موسی ،ابو بکر،سنن بہیقی الکبری،مکہ مکرمہ ،مکتبہ
دارالباز،1994ء،جلد2،صفحہ76، (قال أبو سعيد الدارمي ومما يحقق قول
سفيان بن عيينة أنهم لقنوه
هذه الكلمة(ثم لایعود) أن سفيان الثوري وزهير بن معاوية وهشيما وغيرهم من أهل
العلم لم يجيئوا بها إنما جاء بها من
سمع منه بآخره)
([69])قیاس
کا لغوی معنی “اندازہ”کرناہے ۔( لسان العرب، جلد6ص186) جیسے کہاجاتاہے: قست الثوب بالذراع أي قدرته به“میں نے گزکے ساتھ کپڑے
کااندازہ کیا”(الدمشقی ،عبدالقادر بن بدران ،المدخل لابن بدران ،بیروت ،موسسہ الرسالہ 1401ھ
،جلداول ،صفحہ 300) اور اصطلاح میں کہتے ہیں :مساواة فرع الأصل في علة حكمه“فرع کا اصل کے برابر ہونا اس
کی حکم کی علت میں”(ایضا ،جلداول،صفحہ300)
Comments
Post a Comment